Aaj News

بدھ, مئ 15, 2024  
07 Dhul-Qadah 1445  

دنیا میں ہر سال 36 لاکھ انسانوں کی جان لینے والے 3 امراض

اپ ڈیٹ 13 اپريل 2020 05:48am

تین امراض ایسے ہیں جن سے دنیا بھر میں ہر سال 36 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوکر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

ہر سال 36 لاکھ سے زائد زندگیاں نگلنے والے یہ تین امراض ٹی بی، یرقان اور ایڈز کے اعداد وشمار کا جائزہ لیتے ہیں۔

امریکی ادارے یوایس ایڈ کی رپورٹ کے مطابق جون 2019 میں ایچ آئی وی (ایڈز) کے مریضوں کی تعداد 24۔5 ملین تھی جبکہ 2018 میں یہ مرض 7 لاکھ 70 ہزار انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار گیا۔ 2010 میں ایچ آئی وی سے مرنے والوں کی تعداد 8 لاکھ 60 ہزار تھی۔

تپ دق یعنی ٹی بی کے بارے میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیوایچ او) کی سال 2019 کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ٹی بی سے ایک سال کے دوران دنیا بھر میں 15 لاکھ اموات ہوئیں اور ایک کروڑ سے زائد مریض سامنے آئے جبکہ 4 لاکھ 84 ہزارمریضوں کو صحت یاب ہونے کے بعد دوبارہ مرض لاحق ہوا۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہیپاٹائٹس، دنیا بھر میں ہونے والی اموات کی آٹھویں سب سے بڑی وجہ ہے اس بیماری کے باعث سالانہ تقریباً 14 لاکھ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

ہیپاٹائٹس کا مرض بنیادی طور پر سوزش جگر کہلاتا ہے جس کی پانچ اقسام ہیں یعنی اے، بی، سی ، ڈی اور ای۔ ہیپاٹائٹس بی اور سی کو "خاموش قاتل" قرار دیا جاتا ہے کیونکہ ان بیماریوں کا مریض کو عموماً اس وقت ہی علم ہوتا ہے جب یا تو وہ ان کے ٹیسٹ کروالے یا پھر اس کا جگر خطرناک حد تک خراب ہو جائے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق کرّہ ارض کی کل آبادی کے ایک تہائی افراد میں ٹی بی کے جراثیم پائے جاتے ہیں، لیکن متاثرہ ہونے والوں کی تعداد سالانہ ایک کروڑ تک ہے صرف پاکستان میں سالانہ تقریباً 5 لاکھ افراد ٹی بی کے مرض کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں سے 70 ہزار کے قریب لقمہ اجل بھی بن جاتے ہیں۔ یہ خُردبینی جرثوما اپنے وجود میں نہایت سخت جان ہے، جو انتہائی تیزی سے تقسیم در تقسیم ہو کر لاکھوں، کروڑوں کی تعداد میں پھلنے پھولنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جبکہ تپ دق کے جراثیم کا اصل ہدف نظامِ تنفّس ہے، یہ جراثیم سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں داخل ہوکر افزائش کرتے ہیں مگر بعض اوقات خون کے ذریعے پورے جسم میں بھی پھیل جاتے ہیں۔

سائنس دانوں نے اس جرثومے کی جزئیات، فطرت و ہئیت وغیرہ کے حوالے سے مزید تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ یہ جرثوما سلاخ نما جوڑے کی شکل میں زندہ رہتا ہے اور اگر ایک بار سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہوجائے، تو برسوں زندہ رہنے کے باوجود بے ضرر ہی رہتا ہے۔ کئی ممالک میں دہائیوں پرانی قبروں سے برآمد ہڈیوں میں بھی ٹی بی کے ایکٹیو جرثومے پائے گئے ہیں، یہ بھی کمزور قوت مدافعت والوں کو اپنا شکار بناتا ہے، عام طور پر ٹی بی سے متاثرہ فرد کے پھیپھڑوں میں موجود جراثیم تقسیم در تقسیم ہو کر ان گنت تعداد میں کھانسنے، چیخنے، چلانے یا چھینک سے ہوا میں پھیل جاتے ہیں۔

اس دوران اگر یہ کسی صحت مند فرد کے پھیپھڑوں میں سانس لینے کے ساتھ داخل ہوجائیں، تو وہاں باریک باریک جھلّیوں میں پرورش پانے لگتے ہیں کہ پھیپھڑوں کا درجہ حرارت، نمی اورصحت مند خلیے اس کی نشوونما کیلئے مرغوب غذا کا کام دیتے ہیں۔ یہ جرثومہ سالوں تک جسم میں فعال رہتا ہے اور قوت مدافعت کمزور پڑ جانے یا کسی اور بیماری کی صورت میں یہ فعال ہوجاتا ہے۔

یوں تو ٹی بی 90 فی صد پھیپھڑوں یا نظامِ تنفّس کی بیماری ہے، لیکن بعض اوقات یہ لمف گلینڈز، تولیدی اعضاء، دماغ، ہڈیوں، جوڑوں، جگر، گردے، مثانے، نظامِ ہضم اور جلد تک کو متاثر کرتا ہے۔

اس وقت دنیا بَھر میں تقریباً 5 لاکھ مریض ملٹی ڈرگ ریزیسٹینٹ ٹی بی کا شکار ہیں جبکہ پاکستان میں ان مریضوں کی تعداد 35 ہزار کے لگ بھگ ہے۔

ہیپاٹائٹس کے بارے میں عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے یہ مرض سے دنیا بھر میں ہونے والی اموات کی آٹھویں سب سے بڑی وجہ ہے اس بیماری کے باعث سالانہ 14 لاکھ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ عالمی ادارہ ِ صحت کی گلوبل ہیپاٹائٹس رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس بی کے مریضوں کی تعداد 25 کروڑ 75 لاکھ سے بھی متجاوز ہو چکی ہے جو دنیا کی آبادی کا 5.3 فیصد ہے اور ہیپاٹائٹس  C سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 07 کروڑ 10 لاکھ ہے جو کہ دنیا کی آبادی کا ایک فیصد ہے۔

دنیا میں اِس وقت 32 کروڑ 80 لاکھ افراد مختلف طرح کے ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں، ہر سال 17 لاکھ 50 ہزار ہیپاٹائٹس سی کے نئے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں روزانہ 111 سے زائد افراد ہیپاٹائٹس بی اور سی کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، پاکستان میں دونوں بیماریوں میں مبتلا افراد کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہے جن میں سے اکثریت کو اپنی بیماری سے متعلق علم ہی نہیں۔

پاکستان ہیپاٹائٹس کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتیں ٹی بی، ڈینگی، ملیریا اور ایڈز کے نتیجے میں ہونے والی اموات سے کہیں زیادہ ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں 7 کروڑ 10 لاکھ افراد ہیپاٹائٹس سی کے موذی مرض میں مبتلا ہیں جن میں سے 10 فیصد یا 71 لاکھ افراد پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 3 کروڑ 25 لاکھ افراد ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں اس اعتبار سے ہیپاٹائٹس بی اور سی اس وقت دنیا بَھر میں صحت عامہ کا بہت بڑا مسئلہ ہیں، مگر آج تک اس جان لیوا مرض کیلئے کورونا جیسی عالمگیر ابلاغی مہم نہیں چلائی گئی۔

اسی طرح ایچ آئی وی ”ہیومن امیونوڈیفیشنسی وائرس“ کا مخفف ہے یہ وائرس جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور کرتا ہے جس کے باعث متاثرہ جسم کو عام طرح کی انفیکشن کا مقابلہ کرنے میں دشواری ہونے لگتی ہے اور وہ شدید بیمار ہو جاتا ہے۔

یہ وائرس بھی انسان سے انسانوں حتی کہ جانوروں اور پھر جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 40 سال سے زیادہ عرصہ قبل جب ایڈز پہلی بار شناخت ہوئی تھی تو اس وقت وہ گویا ایک سزائے موت تصور کی جاتی تھی۔

عالمی ادارہ صحت اس پر بھی ہر سال دنیا بھر میں ایڈز کا عالمی دن منا کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرلیتا ہے امریکی صدر ٹرمپ کے موجود مشیر صحت ڈاکٹر انتھونی فاﺅچی ایڈز پر ریسرچ کرنے والی عالمی ٹیم کا بھی حصہ رہے ہیں، انہوں نے ایچ آئی وی کے علاج کی دوا تیار کرنے کیلئے کام کیا اس دوائی سے ایڈز کا خاتمہ تو ممکن نہیں ہوسکا البتہ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وائرس کو مریض سے کسی دوسرے جاندار میں منتقل ہونے سے روکتی ہے۔

کورونا وائرس نے دنیا کو دو سے تین ماہ کے اندر ہی بدل کر رکھ دیا ہے اور ایک نئی اصطلاح کو جنم دیا ہے۔ کورونا کے باعث لاک ڈاﺅن سے نہ صرف کھربوں ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے بلکہ دنیا کے کئی ممالک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئے ہیں اسی طرح ماضی قریب کی تاریخ میں بیروزگاری کی سب سے بڑی شرح پوری دنیا میں دیکھی جارہی ہے۔

(اس تحقیق کیلئے تمام اعدادوشمار عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)، سی ڈی سی، جان ہوپکنز، یونسیف، یوایس نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اور یو ایس ایڈ سے لیے گئے ہیں)